واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت امام موسیٰ کاظم

رضی اللہ تعالٰی عنہ

 

آپ کی ولادت باسعادت ۷صفر ۱۲۸ ہجری میں ہوئی ۔آپ کا اسم گرامی موسیٰ کنیت ابو الحسن   رضی اللہ تعالٰی عنہ  اور لقب کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  تھا اور اسی لیے امام موسیٰ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاظم کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد  حضرت امام جعفر صادق   رضی اللہ تعالٰی عنہ  تھے جن کاخاندانی سلسلہ حضرت امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  شہید کربلا کے واسطہ سے پیغمبر ُ اسلام حضرت محمد مصطفےٰ تک پہنچتا ہے۔ آپ کی مالدہ ماجدہ حمیدہ   رضی اللہ تعالٰی عنہا  خاتون ملک ُ بر بر کی باشندہ تھیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

اس وقت آپ والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے فیوض علمی کادھارا پوری طاقت کے ساتھ بہہ رہا تھا .اگرچہ امام موسیٰ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے پہلے آپ کے دو بڑے بھائی اسماعیل اور عبدالله پید اہوچکے تھے مگر روحانی طریقت کی امانت جو رسول کے بعد اس سلسلہ کے افراد میں ا یک دوسرے کے بعد چلی آرہی تھی جسے منتقل ہونا تھی یہی وہ پیدا ہونے والا مبارک بچہ تھا۔

آپ کی عمرکے بیس برس اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے سایہ تربیت  میں گزرے۔ امام موسیٰ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے بچپنہ او ر جوانی کاکافی حصہ اسی مقدس  آغوش تعلیم میں گزارا. یہاں تک کہ تمام دُنیا کے سامنے آپ کے کمالات وفضائل روشن ہوگئے اور امام جعفر صادق   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے اپنا جانشین مقرر فرمادیا

۱۴۹ ہجری کوجب امام جعفر صادق   رضی اللہ تعالٰی عنہ  اس دنیا سے رخصت ہوئے اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور بادشاہ تھا . یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے  اوربہت  سے تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔خود امام جعفر صادق   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں۔ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھاکہ حکومتِ وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی بوجھ حکومت کے کاندھوں پر رکھ دینے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائداد اور گھر بار کے انتظام کے لیے پانچ شخصوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی . جن میں پہلا شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا . اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ اور عبدالله فطح جو امام موسیٰ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے سن میں بڑے بھائی تھے اور حضرت امام موسیٰ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  اور ان کی والدہ حمیدہ خاتون. امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا اور آپ کاتحفظ بھی کامیاب ثابت ہوا۔

 چنانچہ جب حضرت امام جعفرصادق ؓکی وفات کی اطلاع منصور کو پہنچی تو اس نے پہلے تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظہار رنج کیا. تین مرتبہ انااللهِ واناالیہ راجعون کہا۔ ا س کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ہوتو اس کا سر فوراً قلم کردو . حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انہوں نے تو پانچ وصی مقرر کئے ہیں جن سے پہلے آپ خود ہیں . یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رہا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نہیں کیے جاسکتے . اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رہا لیکن امام موسیٰ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے کوئی تعرض نہیں کیا اور آپ مذہبی فرائض کی انجام دی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رہے ۔

۸۵۱ ہجری کے آخر میں منصور دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا بیٹا مہدی تحت سلطنت پر بیٹھا . شروع میں تو اس نے بھی امام موسیٰ کاظم ؓ کے عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤ نہیں گیا مگر چند سال کے بعد پھر وہی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور ۸۶۱ ہجری میں جب وہ حج کے نام سے حجاز مقدس کی طرف آیاتو امام موسیٰ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاظم ؓکو اپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیا اور قید کردیا . ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رہے . پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور حضرت موسیٰ کاظم ؓکو مدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیا گیا , مہدی کے بعد اس کابھائی ہادی ۹۲۱ ہجری میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مہینے تک اُس نے حکومت کی . اس کے بعد ہارون رشید کازمانہ آیا جس میں پھر امام موسیٰ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نہیں ہوا۔

حضرت امام موسیٰ کاظمؓ کو مدینے کے ایک حاکم سخت تکلیفیں پہنچیں۔  جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بہت شکایات کیں اور یہ کہا کہ ہمیں ضبط کی تاب نہیں . ہمیں اس سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے تو حضرت امام موسیٰ کاظمؓ نے فرمایا کہ میں خود اس کاتدارک کروں گا ۔ اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت امام موسیٰ کاظمؓ خود اس شخص کے پاس ا سکی زراعت پر تشریف لے گئے اور کچھ ایسا احسان اور سلوک فرما یا کہ وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ہوا ا ور اپنے طرزِ عمل کو بدل دیا ۔اسی طرح محمد ابنِ اسمٰعیل کے ساتھ جو حضرت امام موسیٰ کاظمؓ کی جان لینے کاباعث ہوا , آپ برابر احسان فرماتے رہے , یہاں تک کہ اس سفر کے لیے جو اس نے مدینے سے بغداد کی جانب خلیفہ عباسی کے پاس حضرت امام موسیٰ کاظمؓ کی شکائتیں کرنے کے لیے کیا تھا . ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم کی رقم خود حضرت ہی نے عطا فرمائی تھی جس کو لے کر وہ روانہ ہوا تھا۔

۹۷۱ ہجری میں ہادی کے بعد ہارون تخت ُ خلافت پر بیٹھا۔ تخت ُ سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پہلے تصور پیدا ہوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں قائم ہے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کی اندرونی مشکلا ت ان کی وجہ سے نوبرس تک ہارون کو بھی کسی کھلے ہوئے تشدد کا امام   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے خلاف موقع نہیں ملا . اس دوران میں عبدالله ابن حسن   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے فرزند یحییٰ کاواقعہ درپیش ہوا ور وہ امان دیئے جانے کے بعد تمام عہدو پیمان کوتوڑ کردردناک طریقے پر پہلے قید رکھے گئے او رپھر قتل کئے گئے ۔

ہارون رشید حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ میں آیا .اتفاق سے اسی سال امام موسی کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  بھی حج کو تشریف لائے ہوئے تھے . ہارون نے اپنی آنکھ سے اس عظمت اور مرجعیت کا مشاہدہ کی جو مسلمانوںمیں امام موسی کاظم   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے متعلق پائی جاتی تھی . اس سے بھی اس کے حسد کی اگ بھڑک اٹھی ۔ہارون رشید نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی مخالفت کی صورتوں پر غور کرتے ہوئے یحیی ٰبرمکی سے مشورہ لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اولاد ابوطالب   رضی اللہ تعالٰی عنہ  میں سے کسی کو بلا کر اس سے موسٰی بن جعفر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے پورے پورے حالات دریافت کروں۔اسی دوران محمد ابن اسمٰعیل بغداد پہنچے اور وزیر اعظم یحییٰ برمکی کے ساتھ ہارون کے دربار میں پہنچے

مصلحت وقت کی بنا پر بہت تعظیم و تکریم کی گئی- اثنائے گفتگو میں ہارون نے مدینہ کے حالات دریافت کئے- محمد نے انتہائی غلط بیانیوں کے ساتھ وہاں کے حالات کا تذکرہ کیا اور یہ بھی کہا کہ میں نے آج تک نہیں دیکھا اور نہ سنا کہ ایک ملک میں دو بادشاہ ہوں- ہارون نے کہا کہ اس کا کیا مطلب۔ محمد نے کہا کہ بالکل اسی طرح جس طرح آپ بغداد میں سلطنت قائم کئے ہوئے ہیں اسی طرح حضرت امام موسیٰ کاظمؓ  نے سلطنت قائم کی ہوئی ہے- اطراف ملک سے ان کے پاس خراج پہنچتا ہے اور وہ آپ کے مقابلے کے دعوے دار ہیں- ہارون کا غضب انتہائی اشتعال کے درجے تک پہنچ گیا- اس نے محمد کو دس ہزار دینار عطا کر کے رخصت کیا- اسی شب کو محمد کے حلق میں درد پیدا ہوا- صبح ہوتے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے- ہارون کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اشرفیوں کے توڑے واپس منگوا لئے مگر محمد کی باتوں کا اثر اس کے دل میں ایسا جم گیا تھا کہ اس نے یہ طے کر لیا کہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے-

چنانچہ ہارون رشید نے مکہ معظمہ کا سفر کیا اور وہاں سے مدینہ منورہ گیا- دو ایک روز قیام کے بعد کچھ لوگ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لئے روزانہ کئے- جب یہ لوگ امام   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت   رضی اللہ تعالٰی عنہ  روضئہ رسول پر ہیں- ان لوگوں نے روضہ پیغمبر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی عزت کا بھی خیال نہ کیا- حضرت   رضی اللہ تعالٰی عنہ  اس وقت قبر رسول کے نزدیک نماز میں مشغول تھے- بے رحم دشمنوں نے آپ کو نماز کی حالت میں ہی قید کر لیا اور ہارون کے پاس لے گئے۔یہ بیس شوال ۱۰۷۹ ہجری کا واقعہ ہے- معلوم نہیں کتنے ہیر پھیر سے یہ راستہ   طے کیا گیا تھا کہ پورے ایک مہینہ سترہ روزکے بعد سات ذی الحجہ کو آپ بصرہ پہنچائے گئے-

ایک سال تک حضرت امام موسیٰ کاظمؓ  بصرہ میں قید رہے- یہاں کا حاکم ہارون کا چچا زاد بھائی عیسٰی ابن جعفر تھا شروع میں تو اسے صرف بادشاہ کے حکم  کی تعمیل مدنظر تھی بعد میں اس نے غور کرنا شروع کیا- آخر ان کے قید کئے جانے کا سبب کیا ہے- اس سلسلے میں اس کو امام   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے حالات اور سیرت زندگی اور اخلاق و اوصاف کی جستجو کا موقع بھی ملا اور جتنا اس نے امام   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی سیرت کا مطالعہ کیا اتنا اس کے دل پر آپ کی بلندی اخلاق اور حسن کردار کا اثرقائم ہو گیا- اپنے ان تاثرات سے اس نے ہارون کو مطلع بھی کر دیا-

 ہارون پر اس کا الٹا اثر ہوا کہ عیسٰی کے متعلق بدگمانی پیدا ہو گئی- اس لئے اس نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو بغداد میں بلا بھیجا- فضل ابن ربیع کی حراست میں دے دیا اور پھر فضل کا رجحان حضرت امام موسیٰ کاظمؓ  کی طرف محسوس کر کے یحییٰ برمکی کو اس کے لئے مقرر کیا- معلوم ہوتا ہے کہ امام   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے اخلاق واوصاف کی کشش ہر ایک پر اپنا اثر ڈالتی تھی- اس لئے ظالم بادشاہ کو نگرانوں کی تبدیلی کی ضرورت پڑتی تھی-

سب سے آخر میں امام   رضی اللہ تعالٰی عنہ  سندی بن شاہک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بہت ہی بے رحم اور سخت دل تھا- آخر اسی قید میں حضرت   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کوانگوریا کھجور میں زہر دیا گیا-

آپ۲۵رجب ۱۸۳ ہجری میں ۵۵سال کی عمر آپ اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔آپ کو عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باہر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشہور ہے سپرد خاک کر دیا گیا۔